Tarjuma Quran
English Articales

اولاد کی تربیت کے لئے راہنما اصول اپنانے ہوں گے ۔ یوم والدین کی تقریب سے علامہ حسنات احمد مرتضے کا خطاب

Published on:   30-06-2011

Posted By:   محمد کامران عارف

علامہ صاحبزادہ حسنات احمدمرتضے نے کہا ہے کہ اولاد کی تربیت کرنا والدین کا دینی فریضہ ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع مسجد صوفیا میونخ میں یوم والدین کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ قرآن کریم سورہ تحریم کی آیت نمبر چھ میں بیان ہوا ہے ,, اے اہل ایمان ! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن خدا فراموش انسان اور پتھر ہیں ۔جس پر سخت اور قوت والے فرشتے مقرر ہیں اللہ انہیں جو حکم دیتا ہے وہ نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ۔،،انہوں نے کہا آج کا پہلا پیغام یہ ہے کہ والدین کو ارادہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے اپنی اولاد کودوزخ کی آگ سے بچانا ہے ۔ان کی آخرت بہتر کرنے کے لئے کو شش کرنی ہے ۔دوسرا پیغام یہ کہ آگ سے کسیے بچایا جا سکتا ہے ؟ آگ سے بچانے کے لئے ادب ،علم اور تقوی سکھانا ہو گا امام بخاری نے اس آیت کے تحت مجاہد کا قول رقم کیا ہے اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو اللہ کے تقوی ٰ سے آگاہ کرو اور انہیںادب کا سلیقہ سکھائو ۔ یہ باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ادب سکھائے ۔ترمذی میں حضرت الاشعری ؓ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا ,,کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے ادب سے زیادہ بہتر تحفہ نہیں دیا،، یاد رکھئے اچھا تحفہ اولاد کے لئے ادب سکھا نا ہے ۔ بچہ پیدا ہو تو اسی وقت سے وہ سیکھنا شروع کر دیتا ہے ۔ اس لئے والدین کو اسی وقت سے احتیا ط کا دامن اختیار کرنا چاہئے ۔شکاگو کے ایک ماہر تعلیم فرانس دے لینڈ پارکر نے ایک موقع پر بچوں کی تعلیم و تربیت پر لیکچر دیا تو ایک خاتون نے سوال کیا کہ مجھے بچے کی تعلیم کا آغاز کب سے کرنا چاہئے ؟ اس نے پو چھا کہ آپ کے ہاں بچہ کب پیدا ہو گا ؟ اس خاتون نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہنے لگی کیا آپ کا کیا مطلب ہے ؟ میرا بچہ تو پانچ سال کا ہے ۔ اس پر ماہر تعلیم نے کہا ، محترمہ آپ ابھی تک یہاں کھڑے ہو کر باتیں کررہی ہو آپ تو پہلے ہی اس کے پانچ بہترین سال ضائع کر چکی ہو ۔ اب آپ آئیے اس بات کی طرف کہ نبی ﷺ نے فرمایا اپنے بچوں کی زبان جب وہ کھلے سب سے پہلے لا الہ الا اللہ کہلوائو ، اور موت کے وقت ان کو اسی کلمہ کی تلقین کرو ۔ایک دوسری رویت میں ہے کہ آپ ﷺبچے کی زبان کھلنے پر اس بچے کو سورہ فرقان کی آیت نمبر دو سکھاتے ۔بچوں کو شروع سے ہی سکھانا چاہئے ۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ بچپن کا سیکھا ہوا مجھے اب تک یادہے جب کہ بڑے ہو کر سیکھا ہوا بھول جاتا ہے ۔اس لئے امام غزالی فرماتے ہیں,, بچہ اپنے والدین کے پاس ایک امانت ہے ۔اس کا دل ایک قیمتی جو ہر ہے اگر بچے کو بھلائی کا عادی بنایا جائے اور اچھی تعلیم دی جائے تو بچہ اس نہج پر پروان چڑھتا ہے اور دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کر لیتا ہے ۔ اگر بچے کو بری باتوں کا عادی بنایا جائے یا اسکی تربیت سے غفلت برتی جائے اور اسے جانوروں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو بد بختی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔،، بچہ کا دل ایک سفید کاغذ کی طرح ہو تا ہے ۔ آپ اس پے جو رنگ لگائیں وہی اس پر چڑھ جائے گا ۔ اس لئے کو شش کریں بچوں کے دلوں پر دین کا رنگ چڑھ جائے ۔کو شش کرنا والدین کا کام ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانا اللہ تعالی کا کام ہے ۔ کو شش جاری رکھنی چاہئے ۔ جب والدین بچوں کی تربیت کے معاملے میں کو شش کریں گے اور اپنے بچوں کو عزت سے نوازیں گے تو اللہ تعالی کی خاص مدد ہوجائے گی ۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ,, تم اپنی اولاد کی عزت کرو اور انکی اچھی تربیت کرو،، اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے والدین کو بے جاسختی سے باز رہنا چاہئے ۔ ہر وقت تنقید کرنا بچوں کی تربیت کے اصولوں کے منافی ہے اس لئے والدین بچوں کو عزت دیں ۔ جب والدین بچوں کو عزت دیں گے تو بچے بھی والدین کی عزت کریں گے ۔ تیسرا پیغام والدین کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو محبت اور پیار سے نوازیں ۔ بچہ محبت اور پیار سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ۔ تربیت کے معاملے میں بچوںکو محبت ضرور دیں ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ بچوں کو محبت اور پیار سے نوازتے ۔ ایک بار آپ نے حسن کو پیار کیا تو اقرع بن حابس نے عرض کیا یارسول اللہﷺ آپ بھی بچوں کو پیار فرماتے ہیں ۔ میرے تو دس بچے ہیں میں نے ان کو کبھی پیار نہیںکیا ۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا اگر اللہ تعالی نے تمھارے دل سے رحمت و شفقت کونکال دیا ہے تو میں کیا کرو۔ آپ ﷺ کے عمل سے یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہے کہ بچوں کے ساتھ محبت پیار اور شفقت والا انداز ہی عمدہ و احسن ہے ۔ ایک موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا اکثرو من قبلۃ اولادکم ،فان لکم بکل قبلۃ درجۃفی الجنۃ اپنے بچوں کو بوسے دو اس لئے کہ تمھارا ہر بوسہ تمھارے لئے جنت میں ایک درجے بڑھادے گا ۔ہمارے پیاے آقا ﷺ بچوں سے پیار کرتے اور خلفائے راشدین بھی بچوں سے پیار کرتے اور اس بات کی ترغیب بھی دیتے ۔ حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت عامر کسی اہم منصب پر فائز تھے ۔ایک موقع پر حضرت عمر کے گھر کسی کام کے لئے گئے تو دیکھا ۔آپ لیٹے ہوئے ہیں اور بچے آپ کے سینے پر کھیل کودرہے ہیں ۔ عامر کو یہ بات نا گوار محسوس ہوئی ۔ حضرت عمر انکی پیشانی دیکھ کر ان کی ناگواری کو بھا نپ گئے ۔آپ نے پو چھا اے عامر تمھارا بچوں کے ساتھ بر تائو کیسا ہے ؟ عامر بولے جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو سکتہ طاری ہو جاتا ہے سب طرف خاموشی چھا جاتی ہے ۔ اس پر حضرت عمر نے بڑے ہی پرسوز لہجے میںفرما یا ۔امت محمدیہ کا فرد ہو تے ہوئے یہ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کرنا چاہئے ۔اولاد کو پاکیزہ ، صالح تعلیم و تربیت سے مزین کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔ اولا د کی تربیت کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریز نہیں کرنا چا ہئے ۔بخاری ومسلم نے عمر بن ابوسلمہ سے بیان کیا ۔ عمر بن ابوسلمہ نبی ﷺ کی زوجہ ام سلیم کے صاحبزادے تھے وہ خود بیان کرتے ہیں ۔میں ابھی لڑکا تھا ایک موقع پر نبی ﷺ کی گود میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے میرا ہاتھ پلیٹ میں ہر طرف گھوم رہا تھا آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ۔بیٹے بسم اللہ پڑھ کر اپنے دائیں ہاتھ سے اور اپنی طرف سے کھائو ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس پیار اور محبت سے مجھے سکھا یا گیا کہ اس دن کے بعد یہ بات میری عادت بن گئی ۔چو تھا پیغام والدین کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے درمیان عدل وانصاف اور مساوات کا مظا ہرہ کریں ۔ اولا د کو یہ احساس نہیں ہو نا چاہئے کہ انکے والدین کسی ایک بچے سے زیادہ اور دوسرے سے کم پیار کرتے ہیں ۔ عام طور پر لوگ لڑ کو ں سے زیادہ اور لڑکیوں سے کم پیار کرتے ہیں ۔ حالانکہ تربیتی نقطہ نظر سے یہ درست نہیں ہے ۔ حضرت انس فرماتے ہیں ایک آدمی نبی ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کا بیٹا آیا اس نے اس کو چوما اور گود میں بیٹھا لیا ۔ پھر اسکی بیٹی آئی تو اس نے اس کو اپنے پہلو میں بیٹھا لیا ۔ رسول پا کﷺ نے فرمایا ۔تو نے ان کے درمیا ن عدل نہیں کیا ۔ یعنی لڑکے کو بوسہ دیا اور لڑکی کو بوسہ نہیں دیا ۔صحیحین نے بیان کیا نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میرے والد مجھے لے کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی میں نے اپنے اس لڑکے کو غلام عطا کیا ہے ۔آپ نے پو چھا کیاتم نے اپنے سارے لڑکو ں کو غلام عطا کیا ہے ؟انہوں نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرما یا اپنا عطیہ لو ٹا ئو ۔ ایک دوسری روایت میں ہے آپ نے فرما یا ۔اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو ۔پانچواں پیغام یہ ہے اپنی اولا دکے ساتھ اور انکے سامنے جھوٹ مت بو لیں ۔ بچہ بڑوں کا جھوٹ محسوس کرے گا ۔ تو اس کو بھی جھوٹ بو لنے کی عادت ہو جائے گی ۔ اس لئے والدین کو اس معاملے میں انتہائی احتیا ط کا مظا ہر ہ کرنا چاہئے ۔ سنن ابی دائود میں حضرت عبداللہ بن عامر کی روایت ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے ۔ میری والدہ نے مجھے پکا را ۔ آئو تمھیں ایک چیز دو گی ۔ رسول اللہ ﷺ نے میری والدہ سے دریافت فرمایا تم نے اسے کیا دینا چا ہا ؟ والدہ نے عرض کیا کہ کھجور دینا چاہتی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتی تو تمھارے حق میں یہ جھوٹ لکھا جاتا ۔ اس حدیث سے اس بات کوبخوبی سیکھنا چاہئے کہ جھوٹ سے پرہیز بہت ضروری ہے ۔ چھٹا اور آخری پیغام یہ ہے کہ والدین اولا د کی تربیت کو اپنی ذمہ داری محسوس کریں ۔ایک موقع پر شوقی نے کہا ,, یتیم وہ نہیں جس کے والدین غم حیات سے رہائی پا کر اسے اپنے پیچھے خستہ حال چھوڑ گئے ہوں ۔بلکہ یتیم تو وہ ہے جس کی ماں اپنے آپ میں مگن ہو اور باپ کو فرصت نہ ہو ،،شوقی کے اس قول سے والدین کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے مو جود ہوتے ہوئے تعلیم وتربیت نہ کرکے بچوں کو یتیم بنا نا ہے یا تعلیم وتربیت کے ساتھ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرنا ہے ۔آج تعلیم و تربیت کو اہمیت دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بچپن میں آپ تربیت نہ کریں اور آپ کوبعد میں پچھتا نا بھی پڑے اور آپ کی اولا د آپ کو ہی مورد الزام ٹھہرائے ۔ ایک ڈا کو کو سزائے موت کا حکم سنا یا گیا ۔اس نے خوا ہش ظا ہر کی کہ مجھے میری ماں سے ملا یا جائے ۔ اس کی ماں بڑی حسرت کے ساتھ اس کی طرف بڑھی ۔ اس نے ماں کا استقبال کیا اور بڑے پر تپاک طریقے سے ملتے ملتے اپنا منہ اس کے کان کے قریب کیا ، جیسے کہ کوئی بات کرنا چا ہتا ہو ۔ جونہی اس نے اپنا منہ اپنی ماں کے کان کے قریب کیا تو اس نے اس کے کان پر اس زور سے کاٹا کہ ماںکی چیخ نکل گئی ۔ لو گوں نے اس کو لعن طعن کیا کہ تم نے آخری وقت اپنی ماں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا ؟وہ کہنا لگا کہ آج میں اسی کی وجہ سے پھانسی چڑھ رہا ہوں ۔ اس نے کہا جب میں بچہ تھا تو میں نے اپنے پڑوسی کے گھر سے سیب چرایا تھا ۔ اس نے خوشی خوشی رکھ لیا ۔ اس وقت یہ مجھے منع کرتی ، روکتی تو مجھے چوری کی عاد ت نہ پڑتی ۔ گو یا اس ڈاکو نے آخری وقت اپنی ماں کو الزام دیا کہ اس نے میری تربیت نہیں کی ۔ والدین کو چاہئے اپنی والدین کی اچھی تربیت کریں تا کہ وہ عذاب سے محفوظ ہو سکیں ۔