Tarjuma Quran
English Articales

دعائے قنوت ایمانی جذبو ں کاایک خوبصورت اظہار ہے ۔ صاحبزادہ حسنات احمد مرتضے

Published on:   06-04-2013

Posted By:   محمد کامران عارف

علامہ صاحبزادہ حسنات احمد مرتضے نے جامع مسجد صوفیا میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دعائے قنوت ایمانی جذبو ں کاایک خوبصورت اظہار ہے۔یہ جامع اور خوبصورت دعا، نماز وتر میں پڑھی جاتی ہے ۔ نماز وتر واجب ہیں ۔ سنن ابی دائود کی حدیث میں ہے ۔الوتر حق فمن لم یوتر فلیس منا ۔وتر حق ہیں جس نے وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ۔ سنن ابی دائود،سنن ابن ماجہ ، ترمذی میں حضرت مو لیٰ علی ؓسے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ وتر ہے وتر کو محبوب رکھتا ہے اے قرآن والووتر پڑھو ۔حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وتر واجب ہیں ۔امام محمد نے کتاب الحج میں ایک حدیث بیان کی جس میں بیان کی جس میں بیان کیاگیا ہے کہ آپ ﷺ تین رکعات وتر ادا فرماتے ۔پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی ،دوسری رکعت میں قل یاایھاالکفرون اور تیسری میں سورہ اخلاص پڑھتے اور رکوع میں جانے سے پہلے قنوت پڑھتے ۔ سنن نسائی ،طحاوی میں حضرت عائشہ کی روایت یوں ہے ۔ کان رسول اللہﷺ یوتر بثلٰث لا یسلم الافی اخرھن ۔رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر ادا فرماتے اور آخر میں سلام پھیرتے ۔ وتر میں پڑھی جانے والی مشہور دعا یہ ہے ،جسے دعائے قنوت کہا جاتا ہے ۔ ترجمہ ملاحظہ ہو ۔ ,,اے اللہ ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں ،اور تجھ سے معافی مانگتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں اور تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری نا شکری نہیں کرتے اور الگ کرتے ہیں اور چھوڑتے ہیں جو تیری نافرمانی کرے ، اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لئے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری ہی طرف دوڑتے اور خدمت کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرا عذاب کا فروں کو ملنے والا ہے ۔ ،، یہ ایک عمدہ اور خوبصورت دعا ہے ۔ اس دعا میں طلب بھی ہے ، اور جذبو ں کا اظہار بھی ۔اگر ہم غور کریں تو اس میں تین چیزیں طلب کی گئیں ہیں، دو کا موں کے نہ کرنے کا عزم ہے اور دس باتوں میں اس کی کبریائی اور اپنی عاجزی کا اظہار ہے ۔ اس جامع دعا میں تین چیزیں جو مانگی گئیں ہیں ان میں پہلی چیز مدد ہے ۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم اللہ تعالی سے ہی مدد مانگتے ہیں ، اسی کا اظہار کیا گیا ہے کہ اے اللہ ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں ۔یقینا اس کی بارگاہ میں استعانت کرنے والا محروم نہیں رہتا ، اس میں پیغام بھی ہے کہ مشکلات اور تکالیف میں اسی سے مدد مانگی جائے،دوسری چیز اس دعا میں معافی طلب کرنا ہے ، اس سے بخشش مانگنا ہے ۔ ایک انسان ہونے کے ناطے خطائیں لغزشیں اور گناہ سزد ہوتے رہتے ہیں ،لیکن ایک اچھا مسلمان وہی ہوتاہے جو اس سے معافی مانگتا رہے ، ایک بندہ جب سچے دل سے تو بہ کرتاہے تووہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے ۔التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔گناہ سے تائب ہونے والا ایسے ہوتا ہے جیسے اس نے گناہ کیاہی نہیں ہے ۔رسول کریم ﷺ ہر دن میں ستر یا سو بار استغفار فرماتے تاکہ امت کو تعلیم ہو جائے اور وہ بھی استغفار کو اپنی عادت بنائیں ۔اور اس دعا میں یہی سکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالی سے معافی مانگتے رہو ۔ تیسری چیز اللہ تعالی کی رحمت کا طالب ہونا ۔اس سے اسی کی رحمت مانگنا ، جب کسی انسان پر اللہ تعالی کی رحمت ہوتی ہے تو اس کو سکون میسر ہوتا ہے ۔ دنیا وآخرت کے کاموں میں خاص اسکی مدد نصیب ہوتی ہے ۔ دو کا م جن کو نہ کرنے کا عزم ہے ان میں پہلی چیز نا شکری ہے ۔ ناشکری ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے ۔ ایک اچھا مسلمان وہی ہوتاہے جو اس کا شکر بجا لاتا رہتا ہے ۔ قرآن میں نا شکری کرنے والے کو شدید عذاب کی وعید سنائی گئی ۔ اس لئے ناشکری سے بچنا چاہئے ۔ اس دعا میں نا شکری سے بچنے کا عزم ہے ۔ دوسری چیز نا فرمانوں سے الگ ہونے کا عزم ہے ۔ بری صحبت سے بچنا ، صحبت کے اثرات ایک انسان پر مرتب ہوتے ہیں اس لئے نا فرمانوں سے الگ ہونا اور ان کو چھوڑنا ، انکی صحبت سے بچنے کا عزم ہی کامیابی کی علامت ہے ۔ اس کے بعد دعائے قنوت میں دس باتیں ہیں جن میں جذبوں کا اظہار ہے ۔ ایمان کا اقرار ہے ۔اللہ کی بارگاہ میں وارفتگی کا اظہار ہے ۔ وہ دس باتیں جن کا اظہار اور اقرار ہیںوہ یہ ہیں ایمان ، اعتمادوتوکل ، حمد و ثنا ، شکر ، عبودیت یعنی بندگی و عبادت کا اظہار ، نماز ، سجدہ ،اسکی بارگاہ کی طرف دوڑنا ، اور اسکی خدمت میں حاضری کا ظہار کرنا شامل ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو یہ باتیں اپنانے کے باوجود ان کا اظہار ایک انتہائی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے ۔ اسی وجہ سے ہم مختلف محافل میں اللہ و رسول کے نعرے لگا کر اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتے ہیں ۔محبت میں بار بار اظہار پسندیدہ ہوتا ہے اور اس کا ایک اپنا ہی مزا ہوتا ہے ۔اس کی مثال یوں بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ والدین کے لئے اولاد پیاری ہوتی ہے ۔ اسی لئے نام رکھنے کے باوجود اہم مواقع پر انکو میرا بیٹا کہہ کر پکارنا اپنا مزا رکھتا ہے ۔ والدین و اولاد کے تعلق سے بھی بڑھ کر ایک مسلمان کا پنے الٰہ سے تعلق ہوتا ہے ۔دعائے قنوت میں بھی اسی تعلق کا اظہار مقصود ہے ۔ اللہ تعالی اس دعا کی برکات سے ہمیں نوازے ۔