Tarjuma Quran
English Articales

علامات قیامت ظا ہر ہو رہی ہیں لیکن کچھ نشانیوں کا واضح ہو نا باقی ہے ۔علامہ حسنا ت احمد مرتضے

Published on:   29-04-2011

Posted By:   محمد کامران عارف

علامہ صاحبزادہ حسنات احمد مرتضے نے جامع مسجد صوفیا میونخ میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سی علامات قیامت ظاہر ہو چکی ہیں اور ابھی کافی نشانیوں کا ظاہر ہو نا باقی ہے ۔دنیا داری ، مادیت پرستی کو ترجیح دینا اور دین کو اہمیت نہ دینا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مال غنیمت کو اپنی دولت ، اور امانت کو مال غنیمت اور زکوۃ کو ٹیکس بنا لیاجائے اوردین داری کے علاوہ علوم حاصل کئے جائیں ، آدمی بیوی کی فرمانبرداری اور ماں کی نافرمانی کرے ، دوست کے قرب اور باپ سے بعدکو اچھا جانے ،(باپ کی بجائے دوست کو ترجیح دے )مسجدوں میں دنیاوی انداز کی آوازیں بلند ہوں ، قبیلہ کا بدکار شخص اس کی سربراہی کرے ، اورقومی امور کمینہ خصلت کو سونپ دیئے جائیں ، آدمی کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لئے کی جائے ،لونڈیاں اور سامان موسیقی ظاہر(عام ) ہو جائیں ، شراب نوشی عام ہو جائے ،امت میں بعد میں آنے والے پہلوں (اکابرین ) پر لعن طعن کریں ، اسوقت تم سرخ ہو ا، زلزلہ ، خسف ومسخ (دھنسنے اور صورتیں پائمال ہونے )پتھر برسنے اور ان نشانیوں کا انتطار کرنا جو مسلسل ہوں گی ،جیسے ہار کا دھاگا توڑ دیا جائے تو موتی پے درپے گرنے لگ جاتے ہیں ۔ اس حدیث میں بہت سے امور کو بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ ظاہر ہو جائیں تو پھر آندھیاں ، زلزلے ،آبادیوں کی آبادیاں دھنسنے ،صورتیں مسخ ہونے اور آسمان سے پتھروں کے برسنے کی صورت میں عذاب الٰہی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔اور وہ سلسلہ پے درپے ہو گا ۔اس کے بعد کسی کو مہلت نہ ہو گی ۔ بات سوچنے کی یہ ہے کہ کیا ہم ایسے امور کو سرانجام تو نہیں دے رہے جو کہ اللہ وسول کے نزدیک نا پسندیدہ ہیں اور یقینا نا پسندیدہ امور اس حدیث میں بھی بیان کئے گئے ہے کہ مسلمان غنیمت ،زکوۃکے مصارف اور انکی اہمیت کو فراموش کردیں گے ۔غنیمت کیا ہے اور اس کا حق دار کون ہے اس کی معرفت ضروری ہے ۔زکوۃ کو دینی جذبے سے ادا کیاجائے اس کو ٹیکس اور تاوان نہ سمجھا جائے بلکہ اس کی ادائیگی ثواب اور رضائے الٰہی کے جذبوں سے کی جائے ۔اسی طرح امانت کی قدر کھو دیں گے ۔دینی علوم کو سیکھنے کی رغبت نہیں کریں گے ۔یعنی دینی انداز کو ترجیح نہیں دی جائے گی ۔ رشتوں کا تقدس بھی پائے مال کیاجائے گا ۔ حالانکہ ایک مسلمان کے لئے ماں باپ کے حقوق بہت اہمیت کے حامل ہیں ،لیکن آج اس اہمیت کو نظر انداز کیاجارہا ہے ۔ والدین کی بجائے بیوی اوردوست کو ترجیح دی جارہی ہے ،جو کہ ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا ۔ایک مسلمان کو مسجد کی فضیلت کو بھی جاننا چاہیئے ،مسجد اسلام کا مرکز ہے ، اس کا ادب کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ،مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا اور آوازیں بلند کرنا منع ہے ۔ اسی طرح قبائل کی سرداری ،قومی امور کی سرانجام دہی میں کسی کوانتظامی امور سونپنے کے لئے تقوی ، پرہیز گاری اور دین داری کو مد نظررکھنا چاہئے ۔ اگر امانت دار ، صالحین کو نظر انداز کرکے فاسقین اور کمینہ خصلت کو ذمہ داریاں سونپی جائیں ،موسیقی ، شراب نوشی عام کی جائے اور اکابرین کو لعن طعن اختیار کی جائے تو پھر ایسے حالات عذاب الٰہی کو قریب کردیتے ہیں ۔اور جب فطرت کی گرفت آجاتی ہے تو اس سے بچنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ آج ہم سب کو اپنے طور پر اپنا محاسبہ ضرور کرنا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟اور کن امور کو سر انجام دے رہے ہیں ؟